Lahore, Pakistan 18 Agust 2020

 

 نیا دور

’مذہبی بحث غیر دانشورانہ اور سطحی ہو گئی ہے، لوگ سطحیت سے خوش ہیں‘

 

Professor Piotr Balcerowicz

 اگر پاکستان اپنی اصلاح نہیں کرے گا تو 20 سال میں خود بہ خود ٹوٹ  جائے گا-

اصلی پرانی جمہریت کا دور ختم ہوگیا ہے اب

Soft Regime

نرم حکومت کا دور ہے جس کے ذریعہ اشرافیہ اقتدار پر قبضہ کر لے گی اور کسی قسم کے اختلاف یا تنقید کو تشدد  سے دبا دے گی-

                                                             پاکستان اور انڈیا میں تعلقات ٹھیک نہیں ہوں گے کیونکہ دشمنی دونوں ملکوں کی اشرافیہ کے مفاد میں ہے-

دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا کو، سرد جنگ سے بھی بڑا مسئلہ  جو درپیش ہے وہ 

IS IS

ہے-

Professor Piotr Balcerowiecz

پولینڈ میں پیدا ہوئے جہاں وہ فلسفہ ، اوریٹیل سٹیڈیز اور بین القوامی تعلقات پڑھاتے ہیں-وہ پولش اکیڈمی آف سائنس کی کمیٹی کے رکن بھی ہیں-

وہ 1980 کے وسط سے جنوبی ایشیا ، پاکستان، ہندوستان اور افغانستان ہر سال آتے ہیں-وہ کئی زبانیں بول سکتے ہیں-وہ کئی کتابوں کے مصنف ہیں –وہ پاکستان کی کئی یونیورسٹیوں میں آتے ہیں -ان کے لاہور میں پنجاب یونیورسٹی کے دورہ پر ان سے بات چیت کا خلاصہ :

زمان خاں

سوال: آپ نے تعلیم/تحقیق  کا شعبہ کیوں منتخب کیا؟

جواب: مجھے ہمیشہ نئی باتیں سیکھنے کا شوق تھا-مجھے سائنس کے مختلف شعبوں آسٹرانومی، فزکس اور میتھ میں دلچسپی تھی جس کی وجہ سے میری فلسفہ میں دلچسپی بڑھ گئی—میں نے قدیم یونانی، سنسکرت پالی اور پراکرت بھی سیکھی جس سے مجھے  قدیم  فلسفیوں کے مختلف خیالات اور نظریات سمجھنے میں مدد ملی-پھر میں نے ان زبانوں کو پڑھانا شروع کردیا-تعلیم کے شعبہ میں مجھے اپنی دلچسپیوں کوبڑھانے میں آزادی ملی-بعض دفعہ آپ کہہ سکتے ہیں کہ میں بے کار بھی رہا اور صرف اپنی ہوبی[شغل] سے کماتا تھا-

در اصل تعلیم کے شعبہ میں مجھے روزی کمانے کے ساتھ ساتھ اپنی تحقیق اور ذاتی دلچسپیوں میں مدد ملی-

سوال: آپ کے بنیادی طور پر تحقیق کے کون کون سے شعبہ ہیں؟

جواب: مختلف ہیں۔ میں کبھی بھی ایک شعبہ تک محدود نہیں رہا میں ہمیشہ مختلف شعبوں میں دلچسپی لیتا رہا ہوں-

گو یہ شعبہ ظاہری طور پر مختلف لگیں مگر یہ ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں لیکن ان کا فلسفہ ایک ہے-

میری دلچسپی مندرجہ ذیل شعبوں میں ہے-

سیاسی فلسفہ، خاص کر ایشیا کا سیای فلسفہ [جنوبی ایشیا، سنڑل ایشیا اور اسلامی دنیا]

جنوبی ایشیائی زبانیں [سنسکرت، پرکرتی اور پالی]

جنوبی ایشیا اور وسظیٰ ایشیا کی تہذ یبیں

جنوبی ایشیائی فلسفہ خاص کر قدیم ہندوستانی فلسفہ اور تقابلی فلسفہ [مشرق اور مغرب]

کثیر الثقافتوں میں انسانی حقوق

ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں بین القوامی تعلقات

جنوبی ایشیا ، وسطی ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں موجودہ تاریخ اور سیاست

تضادی حرکیات [جدل کی حرکیات] تضاد کی مینجمنٹ-نسلی، مذہبی تضاد اور دہشت گردی-

غیر سرکاری تنظیموں اور ترقی کا نظریہ اور عمل

میں خود تعلیم برائے امن کی غیر سرکاری تنظیم کا بانی ہوں-

سوال: آپ کی اسلامی ریاست کے نظریہ میں کیسے دلچسپی پیدا ہوئی-آپ کا کیا خیال ہے

ISIS

 اور القائدہ وغیرہ تنظمین کامیاب ہوں گیں-آپ مشرق وسطیٰ میں اقتدار کی کشمکش کا کیا نتیجہ دیکھتے ہیں؟

جواب: میں پچھلے بیس/ تیس سالوں سے جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ میں آرہا ہوں کیوں کہ میری دلچسپی  بین القوامی تعلقات، مذہب اور تضاد میں ہے اس لئے آپ ایسے گروہوں  کے ظہور، نام نہاد القائدہ سے آنکھیں نہیں موڑ سکتے-

امریکہ کے ہاتھوں عراق کی حکومت کی تباہی، مشرق وسطیٰ میں اور خطہ میں دوسری حکومتوں کی پشت پناہی اور مشرق وسطیٰ کے انتشار کا منطقی نتیجہ

IS IS

  کا ظہور تھا-

میں سمجھتا ہوں کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا کو سب سے بڑا مسئلہ درپیش ہے، سرد جنگ سے بھی بڑا وہ  

IS IS

میں اس دور کو تیسری جنگ عظیم کی طرف رینگتا دیکھ رہا ہوں-

میرے خِیال میں

IS IS

 اور اس جیسی دوسری تنظییں اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہوں گیں مگر یہ شائد کئی  دہائیوں تک دنیا کا نقشہ تبدیل کردیں اور بنی نوح انسان کے سامنے پیش آنے والے خطرات میں سب سے زیادہ خطرناک ہو-

  سوال: لگتا ہے کہ آپ جمہویت سے مایوس ہو گئے ہیں-آپ کا کیا خِیال ہے جمہوریت کا کیا متبادل ہو سکتا ہے جو کہ انسان کی بہتری کے لئے ہو؟

جواب: نہیں میں جمہوریت سے مایوس نہیں ہوں بلکہ میں تو جمہوریت کو واحد اچھا سیایی نظام سمجھتا ہوں جس میں تمام گروہوں کے مفادات کی ترجمانی اور عزت ہوتی ہے-بعض طرح سے یہ جمہوری اداروں کی بنیادی جڑوں کی توسیع ہے-جو کہ بنیادی سطح پر گاوں یا قبیلہ کی شوریٰ میں رائج ہے-جس چیز سے میں بد زن ہوں اور جس پر مجھے غصہ ہے وہ یہ ہے کہ جس طرح سے جمہوریت کے تصور کر امریک نے حال کی تاریخ میں مسلسل غلط طور پر استعمال کیا ہے-جو کہ سعودی عرب کی وحشی حکومت اور نسل پرست اور ظالم اسرائیل کی حمائت کرتے ہیں لیکن جمہوری تبدیلیوں کی مسلسل مخالفت کرتے ہیں جن کے نتیجہ میں جمہوری حکومتیں قائم ہوں اور جو کہ ضروری نہیں کہ امریکہ کے تابع نہ ہوں-میرے خیال میں جمہوریت کا کوئی متبادل انسانی حقوق کا نہیں ہے کیوں کہ یہ ہی ایک نظام ہے جو خاطر خوا انسانی حقوق کا دفاح کرتا ہے-جو کہ ہر انسان کا بنیادی حق ہے بلا لحاظ نسل، ثقافت اور مذہبی پس ،منظر کے  -پھر میرا دعویٰ ہے کہ جمہوری نظام تمام  مذہب سے لگاو کھاتا ہے-جو کہتے ہیں کہ اسلام میں جمہوریت کی گنجائش نہیں ہے وہ یا تو جمہوریت کو پوری طرح نہیں جانتے یا وہ اس کو امریکہ کے ساتھ گڈ مڈ کرتے ہیں-جب کہ امریکہ اور دوسری طاغوتی طاقتوں کا اپنا ایجنڈہ ہے جس سے سیاست اور معاشرہ کو پوری طرح زیر نگیں کرنا چاہتے ہیں وہ دنیا کوکنڑول کرنا چاہتے ہیں –ہم ایک ہی وقت میں جمہوریت کو رد نہیں کر سکتے اس کے ساتھ سب انسانوں کی برابری اور ان کے برابری کے حقوق اور جن کا اللہ پر اعتقاد، جن کے سامنے سب کے برابر کے حقوق ہیں اور سب برابر ہیں-ایک سچے مسلمان کو ایک سچا جمہوریت پسند ہونا چاہئے-

مسئلہ یہ ہے کہ میری نظر میں سچی جمہوریت کا دور گذر گیا ہے، یقیننا ختم ہو گیا ہے-ہم ایک نئے دور میں داخل ہو چکے ہیں،

Soft Regime

 نرم حکومت کا دور-سوفٹ رجیم –میں ان ریاستوں کو سوفٹ رجیم کہتا ہوں جو بعض چیزوں کو قائم رکھنا چاہتے ہیں ، جمہوری ڈھانچہ، جیسے قومی الیکشن، بعض چیزوں پر فیصلہ کرنے کا عوام کے حق کا عمل-اس کے ساتھ ہی اصل فیصلہ ایک اشرافیہ کا چھوٹا سا ٹولہ کرتا ہے جس کے پاس وسائل، طاقت، ملڑی کی طاقت، سرمایہ اور میڈیا ہو-ایسی حکومتیں بہت سارے لوگوں قابل قبول معیار زندگی دینے میں دلچسپی رکھتی ہو-لوگوں کو غربت سے نکالے، گوان کے اثر و رسوخ کا دائرہ اور دولت میں اضافہ ہوتا رہے-نرم حکومت اس بات کو یقیقنی بنائے گی کہ لوگ اس سے مایوس نہ ہوں اور اسے تبدیل کرنا نہ چاہیں لیکں اس کے ساتھ وہ اختلاف رائے کو ناممکن بنا دے گی اس لئے کہ سب منحرفین پر حکومت کی نظر ہو گی[دوسرے شہریوں  کی طرح] یا ان کے پاس جدید ہتھیاروں کی وجہ سے یہ ممکن بنا دے گی ، جس سے وہ اختلاف کو فورا دبا دے گی-جس کو ہم پہلے ہی اب دیکھ رہے ہیں-

سوال: آپ پاکستان اور انڈیا کے درمیاں تعلقات کو کیسے دیکھتے ہیں؟

جواب: میں ان میں کوئی بہتری نہیں دیکھ رہا-تاریخ بتاتی ہے کہ یہ ایک حد میں  خود کشی کے راستہ پر چل رہے ہیں-دونوں ملکوں میں سیاسی انتظامیہ ایک دوسرے کو مکمل تباہ کرنے اور پرامن حل ڈھونڈنے میں دلچسپی نہیں رکھتی-کیوں کہ دشمنی رکھ کر وہ اپنے حمائتون کے ووٹ حاسل کر سکتے ہیں-مودی کے جیتنے سے حالات میں جو تبدیلی آئی ہے اس نے ویزوں کو اور مشکل بنا دیا ہے، کیوں کہ دائین بازو کے انتہا پسند خیالات نظریات ہندوتوا پر منحصر خیا لات  لوگوں میں وہی  قوم پرستی اور مذہبی انتہا پسندی کےخیالات گھسیڑ ے گا جو پاکستان میں تعلیم کے نظام میں جنرل ضیا کے زمانے میں تھے اور موجودہ حالات پر اثر انداز ہوتے ہیں-ہندوستان ایسے خیالات نظرہات سے کچھ عرصہ بچا رہا مگر اب حالات بدل چکے ہیں اور اس کا پاکستان کے ساتھ  مستقبل میں تعلقات پر منفی اثر ہوگا-پاکستان میں بھی سیا ست دان ہندوستان کے ساتھ اچھے تعلقات میں دلچسپی نہیں رکھتے کیوں کہ سیاسی طاقت خوف پر منحصر ہے، جو ہمسایوں سے ہی-خوف بالکل وہم اور خیالی ہے-ہندوستان کبھی بھی پاکستان کو تباہ کر نے میں دلچسپی  نہین رکھتا اس کی کئی وجوحات ہیں-ایک بہت ہی سادہ ہے اس سے ہندوستان میں مسلمان اقلیت کی تعداد دگنی ہو جائے گی-مودی کبھی بھی یہ نہیں چاہے گا-

سوال: آپ پاکستان، انڈیا اور افغانستان کی ریاستوں کو کیسے دیکھتے ہیں-کیا وہ اس حالت اور ہیت میں قائم رہیں گیں؟

جواب: ان تینوں ریاستون کے باڈر[سرحدیں] مصنوعی ہیں جس میں نسلی شناخت کی جھلک نہیں ہے-یہ سب قوم کا نظریہ اپنے شہریوں پر مسلط کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں-

پاکستان میں اس عمل کو روکا نہیں گیا جس کی وجہ سے انتشار، دہشت گردی ، مذہبی اتہا پسندی پھیلی ہے اگر جلد ہی سنجیدگی سے نہ روکا گیا تو پاکستان 20 سالوں میں خود بہ خود  ختم ہو جائے گا-یہ سومالیہ ، افغانستان کی طرح کی ایک مثال بن جائے گا اور تباہ ہو جائے گا-

افغانستان میں دسمبر  2001 سے امریکی قبضہ کوئی مسئلہ حل نہیں کر سکا، بنیادی مسئلہ غربت اور معیشت وغیرہ جو کہ تشدد کے عمل کوبڑھاتے ہیں اور لوگوں میں مایوسی، اتنشار پیدا کرتے ہیں اور طالبان تحریک-

انڈیا کے زندہ رہنے کے بہترین مواقع ہیں مگر پھر ایک دائین بازو کی انتہا پسند ، فاشسٹ نظریہ جس کی بنیاد ہندوتا پر ہو –ایک ایسے فرقہ وانانہ تشدد کو جنم دے سکتے ہیں جس کا کبھی ہندوستان کو تجربہ نہیں ہوا-

سوال:  موجودہ جدید  دنیا میں ایران پہلی مذہبی ریاست ہے، یہ کیوں اور کیسے وجود میں آگئی آپ اس کا کیا مستقبل دیکھتے ہیں؟

جواب: ایران مِیں مذہبی ریاست کا وجود میں آنا سب کے لئے حیران کن تھا-نہ صرف رضا شاہ پہلوی بلکہ آیت اللہ خمینی کے لئے بھی، اور بہت بڑے حمائیتی گروپ، جس میں مشرقی بازار کے تاجر،  کمونست، لیفٹسٹ، لبرل جمہوریت پسند وغیرہ، جن کی مدد کے بغیر انقلاب کامیاب ںہیں ہو سکتا تھا-بہر حال عوام، ٰیر مذبہی گروپ، جنہوں نے اس کی کامیابی میں بہت بنیادی  اہم کردار ادا کیا-ان کو اس بات کا شعور نہیں تھا کہ جلد ہی وہ اس انقلاب کا خود شکار ہو جائیں گے-اس لحاط سی اسلامی انقلاب 1789 فرانسیسی انقلاب کی تقلید،  نقل کی- انقلابی خود تشدد کے دور میں اس کا شکار ہو گئے-

 عام خیال کے برعکس جیسا کہ اس کے ناقد سمجھتے ہیں  ایران بہت ہی جدید ہے اور یہ یقننا رضا شاہ پہلوی  کے تشدد کے دور سے بہتر ہے-مزید یہ اپنے ہمسایوں کے لئے کوئی خطرہ نہیں ہے-

مجھے حیرانگی ہے کہ ایرانی حکومت ذمہ دار ہے اگر اس کے پاس ایٹمی ہتھیار بھی ہوں تو- لیکن یہ جمہوری نظام سے کوسوں دور ہے جس میں بنیادی انسانی حقوق ہوں ، جس میں ہر شہری کی رائے کا احترام ہو، ہر شخص کو اپنے ہنر کو بڑھانے کا آزادانہ موقع ملے کیوں کہ اس کے لئے حقیقی سول لبرٹیز اور سماجی اور سیاسی آزادیوں کی ضرورت ہے-اس کے ساتھ ہی میں کوئی ایسا کوئی عمل نہیں دیکھ رہا جو کہ اسلامی نظام کو بدل دے سوائے آیت اللہ خمینائی کی موت کے بعد اندر سے آہستہ سے تبدیلی کے عمل کو تیز کرے، گو مجھے اس کی کوئی امید نہیں ہے-شائد ایسی تبدیلی ممکن ہو جیسا کہ اٹلی میں ڈکٹیٹر جنرل  فرانکو کی 1975 موت کے بعد، عام سیاسی تبدیلی کے بعد  ایسا عمل ہو کہ بادشاہت بحال کردی جائے-جو کہ ابتدائی طور پر فاشزم کی حامی تھی مگر اس نے ایک دم ایسا انقلابی پلٹا کھایا کہ سارا نظام ایک صحت مند اور متحرک جمہوریت میں تبدیل ہو گیا-

سوال: کیا آپ کا خیال ہے کہ مذہب دنیا میں غالب بنیادی کردار ادا کرتا رہے گا؟

جواب: میرے خیال میں ہاں۔میں اس کو بد قسمتی کہوں گا-کیوں کہ مذہب بنیادی طور پر خدا اور بندے کے درمیان رشتہ کا تعین کرتاہے-ایک دفعہ یہ سیاسی، سماجی اور نجی زندگی کے پہلو ریگولیٹ کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے تو یہ مذہب نہیں رہتا-بلکہ ایک جبر کا نظریہ بن جاتا ہے جس کو بعض اشرافیہ استعمال کرتے ہیں جن کا بنیادی مقصد طاقت حاصل کرنا ہے اور ان کا مقصد عوام کی بھلائی نہیں ہوتا-اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ مذہب پہلے سے  زیادہ غالب کردار ادا کرے گا-کیوں کہ میں دیکھتا ہوں کہ پچھلے بیس سالوں کے سیاسی عمل میں یہ کم دانشورانہ ہو گیا ہے اور اس کا انحصار مختلف قسم کے جذبات ، نفرت اور عوامیت پر ہوگیا ہے جو آسانی اور کامیابی  سے ان پڑھ لوگوں کو زیادہ اپیل کرتا ہے، زیادہ مدلل مکالمہ کی نسبت-اس کے علاوہ دنیا بہت پیچیدہ ہو گئی ہے  اور تجزیہ کرنا مشکل ہو گیا ہے اور بہت سارے لوگ عام جواب سے مطمین ہیں-